और (ऐ नबी!) आप उन्हें दो व्यक्तियों का एक उदाहरण दें; जिनमें से एक को हमने अंगूरों के दो बाग़ दिए और हमने दोनों को खजूरों के पेड़ों से घेर दिया और दोनों के बीच कुछ खेती रखी।
Surah Ayat 32 Tafsir (Commentry)
(1) یہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے۔ بلکہ بہت سے اللہ کے ماننے والے بھی اس کوتاہی کا عام ارتکاب کرتے ہیں کہ مصیبت کے وقت تو خوب اللہ اللہ ہو رہا ہے، دعائیں کی جا رہی ہیں توبہ استغفار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالٰی مصیبت کا وہ کڑا وقت نکال دیتا ہے تو پھر بارگاہ الٰہی میں دعا و گڑگڑانے سے غافل ہو جاتے ہیں اور اللہ نے ان کی دعائیں قبول کرکے جس امتحان اور مصیبت سے نجات دی، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق انہیں نصیب نہیں ہوتی۔
(2) یہ تزئین عمل، بطور آزمائش اور مہلت اللہ تعالٰی کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، وسوسوں کے ذریعے سے شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور انسان اس نفس کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، جو انسان کی برائی پر امادہ کرتا ہے،﴿إِنَّ ٱلنَّفۡسَ لَأَمَّارَةُۢ بِٱلسُّوٓءِ﴾ (يوسف: 53). تاہم اس کا شکار ہوتے وہی لوگ ہیں جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ یہاں معنی یہ ہوئے کہ ان کے لیے دعا سے اعراض، شکر الہی سے غفلت اور شہوات و خواہشات کے ساتھ اشتغال کو مزین کردیا گیا ہے۔ (فتح القدیر)
Surah Ayat 32 Tafsir (Commentry)