اس بزرگ نے کہا میں اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں(1) اس (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں(2)۔ ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں(3)، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے.(4)
Surah Ayat 27 Tafsir (Commentry)
(1) ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شریعت الٰہیہ میں یہ مذموم نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اس سے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لیے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے، بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے۔ عہد رسالت مآب (صلى الله عليه وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔
(2) اس سے علما نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے۔
(3) یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایذا محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔
(4) نہ جھگڑا کروں گا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لوں گا۔
Surah Ayat 27 Tafsir (Commentry)